ZombieWar - Episode 5

0

Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

 Episode - 4

 Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim


 Offical Writer at KoH Novels Urdu


 - - -

کاظم کو لگا تھا کہ اب شاید اسے نئے دوست مل گئے ہیں لیکن اسے ان کی غداری پہ بہت غصہ آیا۔ خاص کر اسے بریعہ سے یہ امید نہیں تھی۔ بریعہ کا خیال آیا تو کاظم کی رفتار بھی دھیمی پڑ گئی۔جس کے متعلق اسے خبر نہ ہوئی۔ تبھی موقعی پاکر ایک آدمخور نے اپنی رفتار تیز کر کے کاظم پر وار کیا۔ آدمخوروں کے پاس دماغ تو ہوتا نہیں تو پھر طکا کیسے درست ہوتا۔ وہ وار کاظم کی پیٹھ پر کاندھے کے قریب لگا جس سے شرٹ ذرا سی پھٹ گئی مگر ہلکا سا زخم بھی ہو گیا۔ یہ وار کاظم کو اس کے جذباتی خیالوں سے باہر لے آیا۔ اسے یہ احساس بھی ہو گیا کہ وہ اب ان کے انتہائی قریب ہے۔ پھر کاظم بھی جی جان سے بھاگنے لگا تو ان سے ذرا فاصلہ بنا پایا۔ تبھی دور مکان کا دروازہ جسے اس نے احتیاطاً بند کرنے کا کہا تھا، کھلنے لگا۔ کاظم کی نظریں پہلے سے ہی اس بند دروازے پر جمی تھیں کہ اب وہ اکیلا رہ گیا ہے وہ کہاں جائے گا۔ اس کا دل تجسس اور حیرانی میں دھڑکنے لگا تھا۔ جلد ہی دروازہ کھلا ، اسے خوشی ہوئی، جب اس نے دروازہ کھولنے والے کو دیکھا وہ کوئی اور نہیں، بریعہ تھی۔ جو چیخ اور کچھ اشارے کر رہی تھی لیکن کاظم کو ان لمحات میں کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ جو بہت جلدی ہی اسے سنائی دینے لگا، جب اسی آدمخور نے پھر سے آگے بڑھ کر وار کیا۔ اس وار سے اسے صرف دھکا ہی لگا۔ بریعہ چلا رہی تھی کہ

 اور تیز بھاگو۔۔۔

کاظم نے اس مکان سے کچھ فاصلہ رہ جانے پر جلدی سے بریعہ کو دروازہ بند کرنے کا کہا۔ 

جلدی سے دروازہ بند کرو۔۔میرے تین کہنے پر۔۔۔ کاظم نے مزید رفتار بڑھاتے ہوئے کہا۔

تین۔۔۔  کاظم نے کہا۔

 ہیں۔۔۔ایک اور دو کہاں گئے۔۔۔بریعہ نے چونک کر کہا۔

بریعہ نے بھی ایک جھٹکے سے دروازہ بند کرنے والا بٹن دبایا۔ دروازہ بند ہونے لگا۔ جب دروازہ کاظم کی ہائیٹ سے زیادہ بند ہو گیا تو دونوں کی بے چینی بڑھی۔ کاظم نے خود پر یقین کو مضبوط کیا اور دروازے کی طرف کود گیا۔ اس کے فوراً بعد ہی ایک آدمخور جو کاظم پر پہلے سے ہی دو بار وار کر چکا تھا،وہ بھی کود گیا۔ کاظم سلپ ہوتا ہوا دروازے جو کہ بہت کم کھلا رہ گیا تھا، کے نیچے سے اندر گھسنے میں کامیاب ہو گیا۔ کہتے ہیں ایک دو بار کوشش سے کوئی کامیاب ہو جائے، تو اس سے انسان کو کانفیڈینس ملتا ہے لیکن اوورکانفیڈینس مت ہونا۔ اتنا تو نہیں مجھے نہیں پتہ کہ ان آدمخوروں میں کانفیڈینس کا کوئی چکر ہے بھی کہ نہیں۔ پر یہ آدمخور کاظم کے کودنے کے فوراً بعد ہی کود گیا۔ وہ کاظم کی طرح کانفیڈینس میں تھا یا اوورکانفیڈینس میں تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس کا ہاتھ، جو اس نے اپنے شکار کی طرف بڑھایا تھا، اندر آیا ، پھر اس کا سر بھی اندر آگیا، اور پھر۔۔۔۔نہیں پھر کچھ نہیں آیا۔ بیچارے کی گردن مکمل اندر آنے سے پہلے ہی کٹ گئی۔ دروازہ زیادہ مضبوط نہیں معلوم ہوتا تھا۔ کاظم کو اب تسلی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں دو وجہ سے تیز ہو رہیں تھیں۔ ایک تو بریعہ کو سامنے پا کر، آگے آپ خود سمجھدار ہیں اور دوسری یہ وجہ وہ حالات تھے۔ جن سے بچ کر وہ آیا تھا۔ اس نے اٹھتے ہی اپنے کاندھوں پر سے مٹی صاف کرتے ہوئے بریعہ سے کہا 

 تم گئیں نہیں۔۔۔ان کے ساتھ؟؟؟ ۔۔

 میں کیوں جاتی ان کے ساتھ۔۔۔۔اور ویسے بھی وہ مجھے لے کر ہی نہیں گئے۔۔.!!۔۔میں نہ تم سے کہتی تھی کہ یہ دونوں شکل سے ہی لٹیرے لگتے ہیں!۔ تمھی تھے جو مانتے نہیں تھے۔۔۔ کروا دیا نا کنگال۔۔۔۔ بریعہ نے رعب جھاڑتے ہوے کہا۔

کاظم جو اس کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا اچانک اسے اس اینٹیڈوڈ کا خیال آیا۔ تو جلدی سے بریعہ کی پاس آیا۔ 

وہ۔۔وہ بیگ کدھر ہے۔۔ کاظم نے گھبراہٹ اور ہڑبڑی میں پوچھا۔

 میں نے تم کو کتنی آوازیں دیں تھیں۔۔۔اااا اااا انھوں نے وہ بیگ بھی چھین لیا۔۔اور۔۔۔ " بریعہ اب معصوم سے شکل نکال کر بولی۔

کیا۔۔۔وہ۔۔وہ بیگ بھی لے گئے۔جانتی ہو اس بیگ میں کیا ہے۔۔اس وائرس کا واحد علاج ہے اس بیگ میں۔۔۔اور کیا کہا انھوں نے۔۔ کاظم کے چہرے پر سے ہوائیاں اڑنے لگیں اور پھر سر پکڑ لیا۔

 کہا تو کچھ نہیں پر۔۔وہ گنز والا بیگ لے کر۔۔اس گاڑی کی دیکھو کیا حالت کر گئے ۔۔بریعہ نے ناخنوں سے ناخن پکڑتے ہوئے نظریں نیچی کرتے ہوئے کہا۔

کاظم نے ایک مرتبہ تو گاڑی میں پڑے بیگ کی طرف دیکھا جو کہ واقعی وہاں نہیں تھا۔ پھر کاظم نے مذید آگے بڑھ کر دیکھا کہ انھوں نے کار کی ٹینکی میں سریہ ٹھونس دیا تھا جس سے کافی پیٹرول ضائع ہو چکا تھا ۔ کاظم نے جلدی سے جیب سے رومال نکالا اور سریہ نکال کر وہاں رومال ٹھونس دیا اور پھر کار کے ٹول باکس میں سے ٹیپ نکال کر وہاں چپکا دی۔ کاظم کو ان دونوں پر بہت غصہ آرہا تھا ۔ کاظم سیڑھیوں پر جاکر بیٹھ گیا اور ہاتھ ملتا ہو کچھ سوچنے لگا۔ دروازے پر آدمخور کھڑے ایک سے ایک وار کر رہے تھے۔ دروازہ دراصل پیتل کی ایک شیٹ تھا۔ جسے آدمخور زیادہ دیر تک ٹچ نہیں کر سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی جو یہ ایک معمولی سا دروازہ ان کو روکے کھڑا تھا۔ جس پر کاظم کی نظر پڑی اور پھر کار کی طرف دیکھا۔ کچھ پل بعد وہ اٹھا اور سیڑھیوں پر اوپر کی جانب چلا گیا۔ بریعہ اسے یہ سب کرتے ہوئے اسی پر نظریں گاڑھے کار پر بیٹھی تھی۔ پھر وہ بھی کاظم کے پیچھے پیچھے چھت پہ چڑھ آئی۔ کاظم آسمان پر اس ہیلی کاپٹر کو ڈھونڈ رہا تھا۔ تبھی اسے وہ دور شمال کی طرف جاتا ہوا دیکھائی دیا ۔ کاظم جلدی سے نیچے اترا اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔ بریعہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا تو وہ ذرا آگے بڑھی اور چھت سے نیچے دیکھا۔ تو نیچے وہ آدمخور کم از کم ستر تو ہونگے۔ جنھیں دیکھ کر بریعہ ڈر گئی اور بھاگتی ہوئی وہ بھی چھت پر سے نیچے اتری اور سیدھی جا کر کار میں بیٹھ گئی۔ 

اب۔تم۔۔۔کیا کرنے والے ہو؟؟ ۔بریعہ نے سہم کر پوچھا۔

 وہی جو انھوں نے ہمارے ساتھ کیا۔۔ کاظم نے جنونی تاثرات دیے۔

یہ کہہ کر کاظم نے گاڑی سٹاڑٹ کی اور بریک لگا کر پوری سپیڈ دی۔جس سے گاڑی کے ٹائر زمین پر رگڑنے لگے اور جلد ہی ان میں سے دھواں نکلنے لگا ۔جو لوگ ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں وہ تو سمجھ ہی گئے ہو نگے۔ کاظم نے بریک پر سے پاؤں اٹھایا۔ تبھی گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی ٹائر گھمانے کی وجہ سے انرشیا تو پیدا ہو چکا۔ جو سامنے الیکٹرک دروازہ کو توڑنے میں مددگار ثابت ہوا۔ رفتار پوری تھی تو وہ ان آدمخوروں کو کچلتے ہوے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ باقی رہے سہے پھر سے ان کے پیچھے نکل پڑے۔ کاظم نے رفتار میں کمی نہ کی اس لیے جلد ہی وہ اس شمالی پہاڑی کے دوسری جانب تھے۔ صحرا تھا پر ان چھوٹی پہاڑیوں کی وجہ سے جگہ تھوڑی سخت بھی تھی۔ بریعہ خوف سے کانپ رہی تھی اور کاظم کی نظریں بس اس ہیلی کاپٹر پر تھیںجو زیادہ دور نہ تھی۔ وہ ہیلی کاپٹر میں شمال کی طرف جا رہے تھے۔ اب سامنے کھائی بھی تھی۔ ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے والے کو کھائی کی فکر تو ہوئی نہیں۔ فکر انھیں سامنے سے آرہے کچھ پرندوں کی تھی۔ جو عین اس ہیلی کاپٹر کی طرف ہی بڑھ رہے تھے۔ جب وہ قریب پہنچ گئے۔ تو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ کوئی پرندے نہیں ہیں۔ وہ بھی آدمخور ہی ہیں۔ کاظم کو ان سن کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کی نظر بس اپنے شکار پر تھی۔ جس کی طرف وہ کار میں تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ عامر ہیلی کاپٹر چلا رہا تھا لیکن عمر ہیلی کاپٹر تو نہیں چلا رہا تھا۔ عمر سمجھ گیا کہ یہ وہی آدمخور ہیں جو اس وائرس سے زیادہ انفکٹڈ ہوئے ہیں۔ وہ جسامت میں بڑے نہیں تھے۔ بس ان کے چمگادڑوں جیسے پر تھے۔ عمر نے ان سے بچنے کے لیے جلدی سے ہیلی کاپٹر کے کنٹرولر کو نیچے کی طرف کر دیا، جسے عامر سنبھالے ہوئے تھا۔ کنٹرولر کے نیچے ہوتے ہی ہیلی کاپٹر بھی نیچے کے طرف جھکا اور ان آدمخوروں کا ہیلی کاپٹر کے پروں سے ٹکرا کر قیمہ نکل گیا۔ تبھی جب انھوں نے ہیلی کاپٹر نیچے کی طرف جھکایا تھا، گاڑی جس میں کاظم اور بریعہ تھے۔ وہ بھی جمپ لگنے کی وجہ سے ابھرے۔ کاظم کی زبان پر ایک ہی جملہ جما ہوا تھا۔ 

 ہم کر لیں گے۔۔۔ہم کر لیں گے۔۔ ہم کر ہیں گے۔۔

گاڑی ابھرتی ہوئی اس ہیلی کاپٹر کے بیچو بیچ سے ان دونوں عامر اور عمر کو ٹکر مارتے ہوئے اپنے ساتھ ہی لے کر ہیلی کاپٹر کی دوسری جانب سے نکلی۔ اب گاڑی بھی نیچے کی طرف بڑھی۔ چونکہ نیچے زمیں ہی نہیں تھی بلکہ کھائی تھی۔ تو کاظم کی زبان پر سے جملے بدل گئے۔

ہم یہ نہیں کر پائیں گے۔۔ یم یہ نہیں کر پائیں گے۔ہم سے نہیں ہوگا۔

اس کھائی میں پانی کی ایک ندی بہہ رہی تھی۔ گاڑی کے سامنے بمپر پہ وہ دونوں بھائی اور اندر کاظم اور بریعہ تھے۔ کھائی اور ندی زیادہ گہری نہیں تھیں۔ گاڑی کھائی میں جا گری۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)