
Novel - Tamasha-e-Muhabbat
Writer - Ezmaira Rajpoot
Episode - 8
2 episodes rozana post hori han rozana is web pr
- = -
نوٹ: براہِ مہربانی ایپی پڑھ کر کمنٹ کرنے کی بھی زحمت کرلیا کریں__ آپ کا کمنٹ ہم رائٹرز کی حوصلہ افزائی کرتا ہے____
(ماضی)
ولی خان کے پاس اچانک سے کسی کی کال آئی اور وہ ہال سے باہر چلا گیا___
ہاں بولو____ ولی خان نے کان کے پاس فون لے جا کر یک لفظی جملہ کہا___
سر____ میں احمد بات کررہا ہوں____ ہمیں معلوم ہوگیا ہے وہ شخص کون تھا____
احمد مجھے پہلے یہ بتاؤ کہ وہ شخص اتنی ٹائٹ سیکیورٹی کے ہوتے ہوئے بھی کیسے پہنچا____
سر یہ کام اُس کا اکیلے کا نہیں ہے___ جہاں تک میرا خیال ہے میر ولا کے کسی فرد نے تمام کیمرے ڈیڈ کیے تھے___ کوئی ایسا جس کی پہنچ گھر کے اندر تھی____
ایسا کون ہوسکتا ہے؟؟؟ کوئی ملازم؟؟؟ مگر کون؟؟؟؟ ولی خان کی زبان پر بہت سے سوال تھے___
سر یہی تو سمجھ نہیں آرہی___ دوسری طرف سے جواب آیا___
اچھا__ تم کل میر ولا کے سب ملازمین کے آئی ڈی کارڈ لے کر میرے اپارٹمنٹ لے کر آؤ_____ ولی خان نے احمد کو حُکم دیا اور کال کاٹ دی___
اب اُس کی سوچوں کا رُخ اس شخص کی طرف تھا___ یہ کوئی عام بات نہ تھی___ ایک شخص رات کے اندھیرے میں اُس کی انشراح کے کمرے میں آیا اور اُس کی عزت داغدار کرنے کی کوشش کی تھی___ ولی خان اُس شخص کی ہستی مٹا دینا چاہتا تھا___
وہ بہت کچھ سوچتا ہوا اندر ہال کی طرف بڑھا___
❤❤❤
ہال میں رنگ و بو کا سماں تھا___دادا سائیں نے انشراح کا تعارف اپنے جاننے والوں سے کروایا__ وہ دادا جان کے ساتھ لوگوں سے مل رہی تھی جب اس کے دادا سائیں اسے ایک ٹیبل کی طرف لے کر گئے
انشراح میر سامنے موجود لوگوں میں اسے دیکھ کر پریشان ہوگئی___ اس دن مال کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا___ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ کبھی اس صورتحال سے گُزرے گی___ اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوچُکا تھا___ نور خان سے بحث کے بعد اب وہ اُس شخص سے معافی مانگنا چاہتی تھی مگر کیسے؟؟؟؟
وہ بہت کُچھ سوچتی آگے بڑھی اور اپنے ہونٹوں پر مُسکراہٹ سجائے اُن کی طرف متوجہ ہوئی___
ان سے ملو نشاء___ یہ میرے بہت ہی عزیز دوست ہیں واصف شاہ اور یہ ان کے بیٹے ہیں ازلان شاہ___ دادا جان نے ازلان کا تعارف نشاء سے کروایا تو نشاء کمال بے نیازی سے ازلان کی طرف دیکھنے لگی اور واصف شاہ کی طرف ادب سے سر جُھکایا انہوں نے آگے بڑھ کر اُس کے سر پر شفقت سے یاتھ رکھا____
اب اُس کی نظر ازلان شاہ پر پڑی ابھی وہ گہری سوچ میں گم تھی جب ازلان شاہ نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا_____
Nice to meet you miss nisha
ازلان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی انشراح میر کو کچھ تسلی ہوئی___
سیم ہیئر! ازلان کی بات سنتے ہی انشراح نے بھی اسے جواب دیا___
پھر دادا سائیں نے اس کا تعارف باقی لوگوں سے کروانے لگے جب کچھ خواتین نے اُسے گھیر لیا اور اُس سے گفتگو کرنے لگیں____
انشراح میر حیران و پریشان کھڑی رہی وہ کسی طرح ازلان شاہ سے معافی مانگنا چاہتی تھی اس کے لئے اسے موقع کی تلاش تھی
انشراح میر نے جیسے ہی ازلان شاہ کو اکیلا کھڑے دیکھا تو وہ اس کی طرف بڑھی___
ایکسکیوز می مسٹر ازلان ____ ازلان کو اپنی پُشت پر جانی پہچانی آواز سنائی دی___ اُس نے مُڑ کر دیکھا تو انشراح کو دیکھتے ایک مسکراہٹ اُچھالی___
انشراح بھی اُس کو دیکھتے مسکرائی___
مجھے آپ سے کُچھ بات کرنی ہے___ انشراح نے ازلان سے کہا___
میں ہمہ تن گوش ہوں مس نشاء___ ازلان شاہ ایک سٹائل سے بولا___
آئی ایم سوری مسٹر ازلان فار دیٹ ڈے___ مجھے اوور ری ایکٹ نہیں کرنا چاہیے تھا___ انشراح نے ازلان سے معافی مانگی
تو ازلان نے اسے فارگیٹ اٹ بول کر بات ختم کردی___
انشراح نے پھر سے معافی مانگی تو ازلان شاہ نے اُسے کہا
میں آپ کو ایک شرط پر معاف کروں گا____
شرط___ کونسی شرط؟؟؟ انشراح حیرانگی سے بولی___
آپ کو مجھ سے دوستی کرنی ہوگی___
باتوں باتوں میں ازلان شاہ نے،انشراح کو دوستی کی آفر کی جسے اس نے بنا کسی بہانے کے قبول کر لیا___
انشراح میر اب ازلان شاہ کے سوالوں کے جواب دے رہی تھی___ اسے وہ اچھا لگا تھا___ وہ اس کے ساتھ کافی حد تک فرینک ہوچکی تھی___
دور کھڑے ولی خان نے یہ منظر دیکھا__ اور اُس کا دل گویا کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو__
مگر وہ نظرانداز کرتا آگے بڑھا جب انشراح میر کی کُچھ کزنز نے اُسے گھیر لیا___
وہ اپنی وجاہت میں کوئی ثانی نہ رکھتا تھا___ وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکیاں اُسے ٹریپ کریں گی اس لئے وہ اپنی ازلی سردمہری اور بے نیازی سے اُن کو اگنور کرتا آگے بڑھ گیا___
یہ سچ تھا ولی خان ایک سرد مزاج لڑکا تھا___ وہ سوائے میر حاکم اور نور خان کے کبھی کسی سے کُھل کر بات نہ کرتا تھا____
نور خان اُس کے جینے کی سب سے بڑی وجہ تھی___9
سال کی عمر میں اُس نے اپنے والدین کو کھویا تھا____
تب سے اُس کی زندگی کا محور صرف اور صرف اُس کی بہن نور خان تھی___
اور انشراح میر____
انشراح میر تو ولی خان کے دل میں بستی تھی___ وہ محافظ تھا انشراح میر کا___ اُسے یاد تھا جب اُس کے بابا آخری سانسیں لے رہے تھے انہوں نے ولی خان کو میر حاکم سے نمک حلالی اور انشراح میر کی حفاظت کی وصیت کی تھی____
تب سے وہ غیر معمولی انداز میں انشراح کے ساتھ سائے کی طرح رہتا تھا___ جب تھوڑا بڑا ہوا تو میر حاکم نے باقاعدہ طور پر اُسے انشراح کے ساتھ رہنے کا حُکم دیا____
انشراح میر نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے اردگرد ولی خان کو دیکھا تھا____ وہ اُس کے ہوش و حواس پر مکمل طور پر سوار تھا____
😍😍🤗🤗🤗😇
(حال)
آج انائیتہ شاہ تیمور ولی خان کے ساتھ خانپور ڈیم آئی تھی_______ یہ ڈیم اسلام آباد سے 50 کلومیٹر دور ہے_____ اس ڈیم کے پانی سے اسلام آباد اور راولپنڈی کو صاف پانی مہیا کیا جاتا ہے____ اسلام آباد، راولپنڈی کے باسیوں کی پانی کی ضرورت اس ڈیم سے پوری ہوتی ہے____
انائیتہ شاہ اور تیمور ولی خان میں دوستی ہو چکی تھی____ وہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوچکے تھے____تیمور ولی خان کو احساس ہوا تھا کہ انائیتہ شاہ کی پرسنل لائف ڈسٹرب ہے___ وہ اپنا بیشتر وقت اس کے ساتھ گزارتا کیونکہ اس کی ماما کی خوشی اس لڑکی سے وابسطہ تھی____
وہ دونوں آج پورا دن ساتھ گزارنے کے ارادے سے گھر سے نکلے تھے___ ازلان شاہ نے اپنی بیٹی کو مکمل آزادی دے رکھی تھی___مگر انائیتہ شاہ کبھی ماں باپ کی آپسی چپقلش اور الجھن بھری زندگی سے باہر نہ نکل سکی___ اسے باہر کی دنیا میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی وہ لوگوں کو ایک حد تک رکھتی تھی ___ مگر تیمور ولی خان پر اس کی ہر حد آکر ختم ہوتی تھی____
خان آپ نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟؟ انائیتہ شاہ نے تیمور سے سوال کیا___
محبت _____وہ کیا ہوتی ہے؟؟ تیمور خان کی طرف سے فوراً جواب آیا____
محبت ایک جذبہ ہے___ محبت تو محبت ہوتی ہے خان جو کبھی بھی کسی بھی وقت ہوجاتی ہے____ محبت میں انسان اپنی زات کو مکمل فراموش کردیتا ہے___ اس کے لئے اس کے محبوب کی رضا سب سے اول ہوتی ہے____ انائیتہ شاہ کو تیمور نے بات کرتے ٹوکا
اچھا اچھا ____ بس کرو یہ کتابی باتیں___ تیمور شاہ نے مسکراتے ہوئے سگریٹ سلگائی___
انائیتہ شاہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی اُس کے دل میں چھناک سے کچھ ٹوٹا تھا____
یہ باتیں نہیں ہیں خان یہ تو ایک اَن دیکھا جذبہ ہے جسے صرف محسوس کیا جاتا ہے____
انائیتہ شاہ اپنی بات پر قائم رہی__
تیمور ولی خان نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر سر جھٹکتے اُس نے سگریٹ کا کش لیا اور دھواں ہوا میں چھوڑتے بولا___
پہلی بات تو محبت وحبت فضول اور بکواس ترین بات ہے___
دوسری بات اگر محبت نامی کوئی جراثیم اس دنیا میں موجود بھی ہوا تو بےفکر رہو بےبی ڈول، تیمور ولی خان کو وہ جراثیم کبھی نہیں لگے گا_____تیمور ولی خان کے ٹھوس لہجے نے انائیتہ شاہ کو سُن کردیا___ وہ اس سے مزید بحث نہ کرسکی___
ابھی وہ لوگ گھومنے میں مصروف تھے جب تیمور نماز پڑھنے کے ارادے سے قریبی مسجد گیا
وہ دُنیا سے ناراض تھا مگر اللہ سے اُس کا رشتہ بہت مضبوط تھا___
اُسے یاد تھا اُس کے بابا نے اُسے تین چیزیں سکھائی تھیں
پہلی چیز_____ اللہ سے محبت___ اُس کی زات پر مکمل یقین___ یہی چیز تھی جو تیمور ولی خان کبھی بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوتا تھا____ اُس نے اپنے الله سے رشتہ مضبوط کر رکھا تھا تبھی تو اُسے دنیاوی سہاروں کی پرواہ نہ تھی____
دوسری چیز____ وفاداری اور نمک حلالی___ تیمور ولی خان اپنے محسنوں سے وفا کرتا تھا وہ تمام لوگ جو اُس کے بُرے وقت کے ساتھی تھے وہ اُن کی دل سے عزت کرتا تھا____
تیسری چیز جو اُس کے بابا نے اُس کو سکھائی تھی وہ تھی نور خان سے محبت____ وہ اپنی پھپھو پر جاب چھڑکتا تھا___ولی خان نے اپنے بیٹے کی رَگ رَگ میں اللہ کی محبت، وفاداری اور نور خان کی محبت ڈالی تھی____
اور وہ چیز جو اس دُنیا نے اُس کو سکھائی تھی وہ تھی نفرت____ ازلان شاہ سے نفرت_____ بربادی___ شاہ فیملی کی بربادی____
اُس نے مسجد کی طرف قدم بڑھائے اور اُسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہا___
انائیتہ شاہ کافی دیر تک گاڑی میں بیٹھی اُس کا انتظار کرنے لگی___ مگر جب تیمور نہ آیا تو
وہ گاڑی سے باہر نکلی اور ارد گرد لوگوں کو دیکھنے لگی___
وہ ابھی اردگرد جائزہ لینے میں مصروف تھی جب ایک شکل سے ہی لفنگا نظر آتا 19 سالہ لڑکا اس کی طرف بڑھا__
Hey Baby how are you??
اس لڑکے کے انا کو مخاطب کیا__
انا کو دیکھتے ہی اُس کی رال ٹپکنے لگی___
انا نے اُسے نظرانداز کیا__
وہ دل ہی دل میں خوفزدہ تھی ____ وہ گاڑی میں بیٹھنے کا ارادہ کرنے لگی جب وہ لڑکا آگے بڑھا اور اس کی کمر کے گرد ہاتھ باندھے اسے اپنی طرف کھینچا
____ let's Come and play with me__ Come on Baby let's enjoy___
انائیتہ شاہ گھبراتے ہوئے اسے پیچھے کی طرف دھکا دینے لگی اُس کا دل خوف سے کانپ رہا تھا___ وہ تصور بھی نہ کرسکتی تھی کہ یوں کوئی شخص اُس سے بدتمیزی کرے گا____ ڈر و خوف کے مارے کانپ اُٹھی___ ایک لڑکی کے لئے سب سے مشکل لمحہ وہی ہوتا ہے جب اُس کی عزت کو خطرہ ہوتا ہے____
اس لڑکے نے اسے اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا___
ابھی وہ اُسے لے کر اپنی منزل کی جانب جانے لگا جب وہ ایک لمبے چوڑے شخص سے ٹکرایا___ جونہی اُس نے سر اٹھا کر دیکھا تو تیمور ولی خان کی آنکھوں میں غصہ اور نفرت دیکھ اُس لڑکے نے انائیتہ کو خود سے الگ کیا___
جانے اُن آنکھوں میں ایسا کیا تھا کہ وہ لڑکا خود ہی انائیتہ سے دور ہوا___
اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا ایک زوردار مکہ اس کے منہ پر پڑا__ اور پھر تیمور ولی خان نے اُس کے منہ پر مکوں کی برسات کی__ اُسے پکڑ کر کار کے ساتھ پٹخا__اس کو دیوانہ وار مارنے لگا__
تیمور ولی خان پر تو گویا وحشت سوار تھی____
وہ اس لڑکے کو مارتا ہوا بولا___
How dare you to touch my Girl???
اُس کے منہ سے مائی گرل سنتے ہی انائیتہ شاہ کی سانس تھم گئی مگر تیمور ولی خان کے جنون کو دیکھ وہ ڈرتے ہوئے آگے بڑھی___
لیو ہم خان__ مگر تیمور تو جنونی انداز میں اُسے مارتا رہا__ گویا اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو___
لیو ہم خان فار سیک می__
انائیتہ شاہ کی آواز جیسے ہی اس کے کانوں میں پڑی اُس نے ایک غصہ اور نفرت بھری نظر اس ادھ موہے لڑکے پر ڈالی____
وہ مُڑا__ اور انائیتہ شاہ کو سینے میں بھینچ لیا__
تم ٹھیک ہو نہ بےبی ڈول ؟؟ تیمور ڈرتے ہانپتے اُس ست پوچھنے لگ___ تیمور کے لہجے کی نرمی اور فکر نے انائیتہ شاہ پر انکشاف کیا کہ دنیا کے لئے وہ بیسٹ اور ظالم تیمور ولی خان اپنی ماں مسز خان کے بعد انائیتہ شاہ کے لئے ایک نرم دل اور محبت کرنے والا تیمور ولی خان ہے__
وہ اُس کے سینے سے لگ کر رونے لگی___
تیمور ولی خان بھی اُسے خود سے الگ نہ کرسکا____
جب انائیتہ نارمل ہوئی تو اس نے سر اُٹھا کر تیمور کی طرف دیکھا____
کون ہو آپ؟؟؟ کیوں آپ کی قربت میں مجھے سکون ملتا___ کیوں آپ کے ساتھ اپنا آپ محفوظ لگتا__؟؟؟
انائیتہ نیلی آنکھیں اُن سیاہ آنکھوں میں ڈالے مخاطب ہوئی___
میں خود کچھ نہیں ہوں سوائے اس کے کہ میں عزتوں کے محافظ ولی خان کا بیٹا ہوں_____
انائیتہ شاہ تک اُس کی آواز نہ پہنچ سکی____ وہ آگے بڑھا اور اُسے گاڑی میں بیٹھنے کا حکم دیا____
وہ گاڑی میں بیٹھی کچھ دیر پہلے کہ واقعہ کو سوچنے لگی____
تیمور آپ ایسے کیوں ہیں؟؟ آپ اتنے سخت دل کیوں بن گئے ہیں؟؟
انائیتہ نے تیمور کو نارمل دیکھتے اس سے سوال کیا___
انسان خود کچھ نہیں بنتا بےبی ڈول__ یہ دُنیا اور اس میں بسنے والے زمینی خُدا اُسے یا تو رحمان بنا دیتے ہیں اور یا پھر شیطان
تیمور نے ذومعنی بات کی جسے وہ نہ سمجھ سکی__اور یوں وہ کافی وقت ایک ساتھ گزار کر شام کو واپس اسلام آباد لوٹے___
😍😍😍
(ماضی)
ازلان شاہ اور انشراح میر آپس میں گوسپ کررہے تھے جب دادا سائیں ان کی طرف بڑھے___
میرے خیال سے ہمیں کیک کاٹنا چاہیے نشاء___ دادا جان نے انشراح کے قریب آتے ہی اس سے کہا
دادا جان بس 5 منٹ اور ویٹ کریں نور ابھی آتی ہوگی____ نور خان کا آج پیپر تھا وہ اس لئے ابھی تک نہیں پہنچی تھی__ انشراح میر اس کے بغیر کیک کاٹنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی___
وہ ابھی دادا جان کے ساتھ اس بارے میں بات کرنے ہی لگی تھی جب اسے ہال کے دروازے سے ولی خان کا ہاتھ تھامے نور خان اینٹر ہوتی نظر آئی___
بلیک پاؤں کو چھوتی فراک اور چوری دار پاجامہ پہنے ، بلڈ ریڈ شیفون کا ڈوپٹہ گلے میں ڈالے___ سیاہ بالوں کی پونی ٹیل بنائے ہلکے پھلکے میک اپ میں بھی وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی___
انشراح میر اس کی طرف بھاگتی ہوئی بڑھی اور وہ دونوں خوب ملیں___
ہیپی برتھ ڈے میری جان___ نور خان اس کے گلے لگتے ہی بولی___
تھینکیو لو____ انشراح بھی اس کے انداز میں بولی___اس کے آتے ہی انشراح نے کیک کاٹا اور دادا سائیں کے بعد نور خان کو کھلایا___
اب نور خان اور انشراح میر سب سے الگ کھڑی ایک دوسرے کی پکس بنارہی تھیں___جب انشراح کی کسی بات پر نور خان کا قہقہہ گونجا___ اس کی جلترنگ ہنسی کی آواز سنتے ہی ازلان کے سینے میں درد اٹھا____ ماضی ایک فلم کی طرح اس کے سامنے چلنے لگا____
یہ ہنسی اُسے مدہوش کردیتی تھی وہ خود پر قابو پاتا
ہال سے جانے لگا جب اس کے گال پر پڑتے ڈمپل نے ایک بار پھر اسے اپنی طرف متوجہ کیا____ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ان کی طرف بڑھا__ جب انشراح بھی نور کو لیے اس کی طرف بڑھی___
نور خان کی نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو وہ خوش ہو گئی اُسے دیکھنے کی حسرت جو پوری ہو گئی تھی___
انشراح نے نور کا تعارف کرایا تو ازلان شاہ نور کو مکمل نظرانداز کرتا انشراح سے گفتگو کرنے لگا جبکہ دوسری جانب نور خان کی اسے اپنے اتنا قریب دیکھتے حالت غیر بھی ہونے لگی____
ازلان شاہ مکمل طور پر نور خان کو نظرانداز کرتا انشراح سے باتوں میں مشغول ہوگیا___ نور خان کو اس کا نظرانداز کرنا بہت چبھا مگر وہ خاموش کھڑی رہی___
ازلان شاہ فوٹوگرافر کو اشارہ کرتا ہوا اپنا اور انشراح کا فوٹوسیشن کروانے لگا___ انشراح کو بھی مروتا رکنا پڑا____
نور خان دور کھڑی ڈبڈباتی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی___ جب اُسے اپنے کندھوں پر کسی کے ہاتھوں کا بوجھ محسوس ہوا___
اُس نے مُڑ کر دیکھا تو مقابل کو دیکھتے ہی اُس کے گلے لگی____
ُیو لک گارجیئس لالہ___وہ ولی خان کو کہتی اس کے ہاتھوں پر عقیدت سے بوسہ دینے لگی____
ولی خان نے اُسے سینے سے لگا لیا اور موبائل جیب سے نکالتا اپنی اور نور کی سیلفی لینے لگا____
ازلان شاہ یہ منظر دیکھ انشراح سے مخاطب ہوا___
یہ لڑکا کون ہے؟؟؟ انشراح نے ولی کی طرف دیکھ کر مخمور لہجے میں کہا___
ولی خان___ ازلان شاہ ناسمجھنے والے انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگا___
نور خان کا لالہ ہے یہ____ انشراح سے تفصیلا تعارف سنتے اُسے تسلی ہوئی____
وہ کتنی ہی دیر ولی خان کو دیکھتا رہا____
وہ ولی سے بہت متاثر ہوا تھا____ اور یہ حقیقت تھی ازلان شاہ بھلے ہی ہینڈسم اور چارمنگ تھا مگر ولی خان کے آگے اس کی شخصیت ماند پڑتی تھی_____
واصف شاہ بھی ولی کو دیکھتے میر حاکم سے مخاطب ہوئے___
میر سائیں___ یہ لڑکا ولی خان کہیں سے بھی ملازم نہیں لگتا____ واللہ اس کی شخصیت کافی سحرانگیز ہے____ یوں لگتا جیسے یہ کسی ریاست کا شہزادہ ہو___
ازلان شاہ بھی اپنے والد کی بات سے متفق ہوا____ جب کہ انشراح میر فخر سے ولی خان کو دیکھنے لگی جو کہ ساری دنیا سے بےنیاز کھڑا اپنی بہن کے ساتھ سیلفی لینے میں مصروف تھا____
انشراح میر نے چُپکے سے اُس کی تصویر لی___ اُس کی اس حرکت کو کسی نے بہت دلچسپی سے نوٹ کیا___،
😍😍 😍
2 episodes rozana post hori han rozana is web pr
- = -
