ZombieWar - Eispode 7

0

Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

 Episode - 7

 Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim


 Offical Writer at KoH Novels Urdu

 - - -

یہ دونوں اس وقت جس ملٹری بیس میں موجود تھے ۔ وہ ایک ریگستان میں تھا اور وہاں تک رسائی کا جلد ذریعہ جہاز ہی تھے ۔ اس لیے وہاں کافی چھوٹے ، بڑے جہاز کھڑے تھے۔ کاظم کے پیچھے بس ایک ہی آدمخور تھا جو اسے رن وے کی ایک طرف دوڑانے میں مصروف تھا۔ دوڑتے دوڑتے کاظم جب اس منی جہازوں ( چھوٹے جہاز جن میں چار یا پانچ لوگ ہی سوار ہو سکتے ہیں ) کے جرڈ ( رن وے کی ایک طرف کا میدان جہاں جہاز تھوڑے سے وقفے کے لیے کھڑے کیے جاتے ہیں ) میں داخل ہو گیا ۔ 

اس جرڈ میں بہت سارے جہاز کھڑے تھے۔ جن کو شاید چلائے جانے کا وقت نہیں تھا۔اسی لیے فوج اپنے ساتھ نہ لے جا سکی ۔ حیرت کی بات کاظم کو یہ بھی لگی کہ ملٹری بیس کے ان آدمخوروں میں سے کسی نے بھی فوجی کی روزی نہیں پہنی تھی ۔ یعنی فوج کو اس وائرس کا پہلے سے ہی علم ہو چکا تھا اور اس طرح فوج پہلے ہی یہاں سے جا چکی تھی ۔

 کاظم کے سمجھ میں یہ بات اب آئی کہ ان دونوں بھائیوں نے جہاز اس کھائی پر سے ہی دوسری طرف کیوں موڑ لیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ملٹری بیس تھی۔

 جو ان کے راستے میں آ سکتی تھی اور بیس میں اگر فوج ہوتی تو ان دونوں کے ایک انجان ہیلی کاپٹر کے لیے خطرہ بن سکتی تھی ۔ یہ بات الگ تھی کہ ملٹری بیس میں فوج تھی ہی نہیں اور اس کا علم ان دونوں بھائیوں کو نہیں تھا۔ 

اُن کی وہم و گمان میں یہی تھا کہ ملٹری بیس ہے تو فوج بھی ہوگی اور ان کا یہی وہم کاظم کے ہاتھوں ان کی زندگی کو زوال میں لے گیا ۔ یوں کاظم ان دونوں بھائیوں کو ختم کر سکا ۔ خیر ان جہازوں کے ہجوم میں کچھ کے دروازے کھولے ہوئے تھے۔ جن میں سے ایک میں کاظم جلدی سے گھس گیا اور اپنے پھولے ہوئے سانسوں کو ری فل کرنے لگا۔

 فوجی جہاز ہو اور ان میں ہتھیار نہ ہوں یہ ممکن نہیں ۔ جہاز میں سے کاظم کو ایک گن( M416 ) ملی۔ کاظم کو گن چلانی نہیں اتی تھی۔اس لیے اس نے گن کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ دوسری طرف بریعہ بھی بھاگی دوڑی جارہی تھی اور اوپر سے کیا کمال چیختی جا رہی تھی۔ بریعہ کی چیخیں بریعہ کے لیے کئی بار مشکل اور کچھ بار مدد گار ثابت ہو چکی تھیں ۔

 بریعہ کی چیخیں جہاز میں چھپے کاظم کے کانوں میں پڑیں تو کاظم کو اپنے اوپر ایک ذمہ داری کا احساس ہوا کہ اب اسے اپنی ہی نہیں کسی اور کی بھی جان بچانی ہے ۔ کاظم کو اس بات نے بھی ہمت دلائی کہ بریعہ کی چیخوں میں کاظم کا نام بھی شامل تھا۔ بریعہ دوڑنے کے ساتھ دو اور کام کر رہی۔

 ایک اپنی سریلی( استغفر اللہ ) چیخیں پورے ملٹری بیس میں بکھیرنے اور دوسرا کاظم کو مدد کے لیے پکار رہی تھی ۔ کاظم کے لیے یہ لمحہ احساس و جذبات سے بھرپور تھا جس لمحے اسے بریعہ کے لبوں سے اپنا نام سنا تب اسے یہ احساس ہوا کہ وہ ابھی بھی کسی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ شدید خوف میں بھی منہ سے کسی انجان انسان کا نام نکلنا ایک عام بات نہیں ہوتی۔

کاظم نے گن اٹھائی اور جہاز سے باہر نکلتے ہی اس آدمخور کو گولیوں سے بھون دیا۔ جو کاظم کو کھو کے وہیں کھڑا تھا۔ کاظم بریعہ کی چیخوں کی آواز کی سمت میں بھاگا اور جہازوں میں سے نکلا تو رن وے کے دوسری جانب بریعہ اور اس کے پیچھے وہی آدمخور ٹولا(گروہ) تھا ۔ 

کاظم ابھی ایک بار گن چلانے سے اتنا بھی ماہر نہیں ہوا تھا کہ اتنے دور بھاگے جا رہے آدمخوروں پر بھی نشانہ سادھ سکے۔ تبھی کاظم کے دماغ کی بتی روشن ہوئی۔ کاظم نے جرڈ میں کھڑے جہازوں میں سے ایک جہاز کا انتخاب کیا اور اس میں داخل ہو کر اسے سٹارٹ کرنے لگا ۔ یہ جہاز ان دوسرے جہازوں کے مقابلے میں زیادہ فسیلیٹیٹڈ ( مختلف گنز اور دوسری سہولیات ) تھا ۔

جہازوں کو سٹارٹ کرنے کے لیے کوئی ایک ترتیب سے بٹن دبانے ہوتے ہیں۔جن کے متعلق کاظم کو تو کوئی علم نہیں تھا۔البتہ اسے اپنے ایک دوست کا مشورہ یاد آیا جو اس نے اسے جہاز سکھانے کے لیے دیا تھا ۔تب کاظم نے اس مشورے پر اپنی گیم کو ترجیع دی تھی اور اس وقت کے کاظم کو کچھ اندازے یاد تھے تو جہاز کے کچھ بٹن دبانے لگا۔

 کاظم کی کچھ کوششوں کے بعد وہ جہاز واقعی سٹارٹ ہو گیا۔ جہاز جسامت میں بڑا بھی نہیں تھا ۔ اس لیے کاظم کو زیادہ دقت بھی پیش نہ آئی ۔ اب جیسے تیسے کر کے کاظم نے جہاز کے منہ کو موڑ کر واپس رن وے کی طرف کیا۔کاظم کو جہاز چلانا تو نہیں آتا تھا پر گیمز میں کھیلا ہوا اس کے کچھ کام آ رہا تھا اور کچھ جو اس نے فلموں میں دیکھا تھا۔

 اس نے جہاز کو رن وے پر ایک بوسٹر کی مدد سے دھیمی دھیمی رفتار سے آگے بڑھایا جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور رن وے پر سے جہاز تو وہ اتار نہیں سکتا تھا اس لیے بریعہ کے قریب پہنچ کر چلتے جہاز پر چڑھنے کا کہا کیونکہ جہاز کو روکنا بھی ممکن نہیں تھا۔جہاز کی رفتار بھی کچھ زیادہ تیز نہیں تھی۔ 

کاظم نے جہاز کو لاک موڈ کر کے بریعہ کی مدد کو جہاز کے دروازے پر آکر ہاتھ جہاں تک ہو سکا بڑھایا۔ بریعہ نے بھی ذرا زیادہ ہمت کر کے کاظم کا ہاتھ پکڑا تو پیچھے سے ایک آدمخور بھی اپنے جاتے ہوئے شکار یعنی بریعہ پر حملہ آور ہوا۔ 

تو کاظم نے اسے دیکھا لیا اور بریعہ کو ایک جھٹکے سے کھینچ کر جہاز پر سوار کر لیا اور وہ آدمخور اپنے وار سے ناکام ہو کر رن وے پر گرا اور جہاز کے ٹائروں تلے روندا گیا ۔ پھر خود جلدی سے کاظم نے جہاز کا کنٹرول سنبھالا لیکن اب کاظم کو جہاز اڑانا بھی نہیں اتا تھا اور اس نے کہیں سے دیکھا جہاز کو اڑانا سیکھا یا دیکھا بھی نہیں تھا۔

آگے رن وے ختم ہونے والا تھا اور جنابِ عالی نے ابھی تک جہاز کے کنڑولر کو صحیح سے پکڑا بھی نہیں تھا بلکہ سامنے موجود سیکڑوں بٹنوں پر پھونکیں مار مار کر دبائے جا رہا تھا۔ بریعہ جو اپنی پھولتی ہوئیں سانسوں کو چھوڑ کاظم کی ان بےوقوفیوں کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔

 جلد سمجھ گئی کہ کاظم کو جتنا آنا تھا آ چکا۔ اب اس سے آگے اس سے کچھ نہیں ہو پاۓ گا۔ بریعہ اپنے خاندان میں سے کسی کے پائلٹ ہونے کی وجہ سے جہازوں کے متعلق کچھ علم رکھتی تھی۔ اس نے کاظم کو جلدی سے ختم ہو رہے رن وے کے ختم ہونے سے پائلٹ سیٹ سے اٹھنے کا کہا 

  " اٹھو جلدی سے۔۔۔۔۔۔۔ میں سنبھالتی ہوں " حالانکہ بریعہ کی سانسیں ابھی بھی چڑھی ہوئیں تھیں اور خود کمان سنبھالتے ہی کچھ بٹنوں کو دبا کر جہاز کے کنٹرولر کو پوری ہمت سے کھینچا۔

 جہاز رن وے کے ختم ہونے کے بعد کچھ پل ریت پر چلا۔ جس سے انھیں جہاز سمیت ایک جھٹکا لگا لیکن پھر جہاز نے بھی آخر کار پرواز پکڑ ہی لی

۔ جب تک وہ ملٹری بیس سے سات ، آٹھ کلومیٹر دور نہیں اگئے بریعہ سے سانسیں نہیں بھریں۔کاظم نے بھی اس جھٹکے کے لگنے سے پہلے ہی جب بریعہ کو کمان دی تھی تبھی دروازے کے سامنے لگے ہینڈلز کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا کیونکہ وہ شاید جانتا تھا کہ اب اس نے جس عظیم الشان انسان , انسان بھی کہاں جس پری کے ہاتھوں میں اپنی زندگی تھمائی ہے وہ کچھ ایسا کارنامہ ضرور سرِسبحان سرانجام دے گی اور وہی کمال بریعہ نے اس نازک موقع پر دل ہلا دینے والے جھٹکے کی شکل میں رونما کر دیا تھا۔

خیر اب دونوں ہی اپنے اپنے دل کو سنبھالنے اور خود کو حوصلہ دینے میں مصروف تھے۔ اب انھیں جہاز میں اور جہاز کو ہواؤں میں تقریباً دس پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔ دونوں نے ابھی اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نکالا تھا۔ کاظم بھی جہاز میں موجود سائیڈ بیلس( بیٹھنے کے لئے ہاف سائیڈڈ ٹیبل ) پر بیٹھ گیا ۔ 

تبھی موبائل کی گھنٹی نے اس خاموشی کا خاتمہ کر دیا۔ بریعہ ابھی بھی جہاز کو لاک موڑ پر لگا کر خود کنٹرولر پر سر رکھے بیٹھی تھی۔ تو اس کی توجہ بھی اس کال نے اپنی طرف متوجہ کر لی مگر سستی کی وجہ سے اپنی موجودہ کیفیت برقرار رکھے ویسے ہی بیٹھی رہی ۔

 ایسے حالات میں کسی کی کال آنا مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ کاظم نے جلدی سے اپنے ہاتھوں کو منہ پر سے ہٹا کر ایک ہاتھ اپنی کالی جین کی پاکٹ میں ڈالا اور اپنا موبائل نکالا۔ کاظم کو موبائل کی سکرین پر کالر کا نمبر مطلوب تھا۔

 اس کو نمبر کی جگہ کالر کا نام ( جلال ) شو ہوا۔ اس نمبر کو دیکھ کر کاظم کے چہرے پر مسکراہٹ چمک اٹھی اور زبان سے حیرتاً یہی الفاظ نکلے 

 " یہ ابھی تک بچا کیسے ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ تین ماہ بعد ' مجھے کیوں کال کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔( اور پھر انہی جملوں کو نفی کرتے ہوئے کہا ) افکورس مجھے کال نہیں کرے گا تو کسے کرے گا... "

یہ کہہ کر کاظم نے کال اٹینڈ کر لی ۔

  " معاف کر دینا یار تیرے گزرا وقت میری زندگی کا سب سے خوبصورت وقت تھا اور میں جانتا ہوں کہ تجھے میری وجہ سے بہت سی تکلیف ہوئی ہونگی ہو سکے تو معاف کر دینا اپنے بھائی کو .......... " یہ کہنے والے کا لہجہ اتنا سنجیدہ تھا کہ یہ سنتے ہی کاظم کے چہرے کے تمام رنگ اڑ گئے۔

  " جلال! کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ بولتا کیوں نہیں ہے کچھ کیوں تو۔۔۔۔۔۔۔ جلال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطرے میں ہو۔۔۔۔ بتاؤ یار۔۔۔۔۔ جلال " کاظم کی آواز آہستہ آہستہ چنگھاڑوں میں بدل گئی۔ 

  " مجھے نہیں پتہ تھا کہ تب کے بچھڑے یوں ملیں گے دوست۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید اگلے کچھ گھنٹے بعد میری آواز تجھے کبھی نہ سنائی دے۔۔۔۔۔۔۔ پر میں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے یار۔۔۔۔۔۔۔ جس نے تجھے میرا یار بنا کر بھیجا " جلال کی آواز سے اس کی تکلیف و بےبسی واضح جھلک رہی تھی۔جیسے اب وہ دوبارہ کبھی نہیں میں گے۔ 

 " دیکھ۔۔۔۔۔۔ تو اب مجھے ٹینشن میں ڈال رہا ہے۔۔۔۔۔۔ بتاتا کیوں نہیں ہے کچھ۔۔۔کہاں ہے تو۔۔۔۔۔۔کیسا ہے تو۔۔۔کیا ہوا کیا تیرے ہے۔۔۔" کاظم بھی جلال کی آواز میں رنگی آواز سے بولا۔

  " کیا بتاؤ تجھے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ کہ اب میں ایک ایسی بلڈنگ کے ٹاپ پر کھڑا ہوں جس کی اونچائی پچیس منزل ہے یا یہ بتاؤں کہ اس بلڈنگ کے نیچے اندر اور اردگرد لاکھوں کروڑوں عجیب و غریب قسم کے انسان کھڑے ہیں۔۔۔۔۔۔۔جن کو نہ درد ہوتا البتہ اپنی ڈرونی شکلوں سے ڈرا ضرور دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ انسان بھی کہاں یہ تو کچھ اور ہی ہیں۔۔۔۔۔۔جیسے سارے کے سارے مجھے ہی کھانے آئے ہوں۔۔۔یا یہ بتا۔۔۔"اس سے پہلے کہ جلال کچھ اور بھی بولتا کاظم نے اس سے کہا

  " دیکھ تو ٹینشن نہ لے۔۔۔۔۔۔ میں ہوں نا ابھی۔۔۔۔۔ ابھی تیرا بھائی زندہ ہے۔۔۔۔۔تو بتا تو کہاں تو ہے کہاں۔۔۔۔۔بتا مجھے " جلال نے بھی پاگلوں کی طرح بےچین آواز کو دباتے ہوۓ جلال سے سوال کیا۔ 

  " اس وائرس کا علم ہوا تو تیری فکر ہوئی مجھے اسی لیے تجھے ملنے کراچی آیا تھا۔۔۔۔۔۔ تجھے ڈھونڈنے ، تیرے گھر گیا تھا پر تو وہاں نہیں تھا تو پھر تیری کمپنی گیا تھا جہاں تو کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔۔۔۔۔پر کچھ لوگ مجھ پر حملہ آور ہوگئے۔ میں جان بچا کر جس طرف راستہ ملا میں بھاگا۔۔۔۔۔ ایک بلڈنگ کی چھت پر ہوں ابھی۔۔۔۔۔۔تیری کمپنی کی بلڈنگ کے سامنے ہی۔۔۔۔۔ بچا سکتا تو بچالے مجھے۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو تو جانتا ہے نا میری روح بھی تیرے ساتھ ہی رہے گی " یہ سن کر جلال سے کاظم کی فون لائن کٹ گئی ۔ کاظم نے بے دردی سے اپنے بال نوچے اور اور پھر جھٹکے سے پاگلوں کی طرح اٹھا اور بریعہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ 

  " واپس موڑوں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کراچی جانا ہے " کاظم سے ہاتھ کی ہتھیلی پائلٹ سیٹ پر مارتے ہوئے کہا

 " ہم وہیں جا رہے ہیں " بریعہ نے ان کی باتیں سن لیں تھیں اور جہاز تبھی واپس موڑ لیا تھا جب کاظم نے فون پر پوچھا تھا "تم کہاں ہو؟ "۔

  " ہمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں کتنی دیر لگ جائے گی وہاں پہنچنے میں " کاظم نے بےچینی سے دوبارہ کیا۔ 

  " یہ جہاز ہے مٹھو۔۔۔۔ دس ، بارہ منٹ تو لگ ہی جائیں گے " بریعہ نے کاظم کا موڈ ہلکہ کرنے کے لیے حوصلے مند الفاظ کا اظہار کیا۔ حالانکہ اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ کتنا وقت لگے گا۔

کاظم واپس سول سیٹ پر بیٹھ گیا۔اس کے دماغ میں جلال سے جڑیں یادیں آنکھوں کے سامنے آنے لگیں۔جلال اس کا بچپن کا دوست تھا۔ یہ دونوں ہی لاوارث تھے۔ یتیم خانے کی پرورش سے ہی بڑے ہوئے۔ تبھی سے دونوں کی اس مضبوط دوستی کی شروعات ہوئی۔

 کاظم اب آکرہ ڈلورر کے ہاں سامان ڈلورنگ کا کام کرتا تھا اور جلال فارغ ہی رہا تھا۔ جلال کی سوچ اسے پروفیشنل بناتی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اسے کوئی ایسا کام ملے جس میں عیش و آرام ہو ورنہ نہ ہو۔ جبکہ کاظم ایک ذمہ دار شخص تھا۔ وہ حالات کے مخالف نہیں بلکہ حالات کو ڈھال بنا کر چلتا تھا۔

کاظم کی یاد میں کبھی وہ یاد آتی جب جلال کاظم کو اپنے جیسا بنانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ ائیر پورٹ پر انجن مینجمنٹ میں اپنے ساتھ لے گیا۔ تبھی اس نے کاظم کو جہاز کو چلانے کے کچھ گُر بتائے تھے۔ جن کی وجہ سے کاظم اس وقت وہاں پر بیٹھا یہ سب کچھ دوبارہ یاد کر رہا تھا اور پھر ایک دن کاظم سے جلال یہ کہہ کہ اچانک کہیں غائب ہی ہو گیا کہ بڑا آدمی بن کر ہی لوٹے گا۔ کاظم نے بھری آنکھوں سے آنسو پونچھے۔

تیرہ منٹ بعد بریعہ منہ میں بڑبڑائی

  " ارے یہ تو کمال ہو گیا۔۔۔۔۔۔ دھوتی پھاڑ کے رومال ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارا طقا بھی بحال ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔( پھر وہ کاظم سے مخاطب ہوئی )  

 " لو جوان پہنچ گئے ہم۔۔۔۔۔۔اب مجھے نیویگیشن دو کہ جانا کہاں ہے " بریعہ نے یونہی زبان کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ الفاظ کہے۔ یہ سن کر کاظم بھی پائلٹ سیٹ کے پیچھے آ کھڑا ہوا اور بریعہ کو نیوگیٹ کرنے لگا۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)