ZombieWar - Episode 6

0

Novel - ZombieWar-Red Zone's Alert

 Episode - 6

 Season - 1

Writer - Daoud Ibrahim


 Offical Writer at KoH Novels Urdu


 - - -


گاڑی سیدھے کھائی کے درمیان میں بہہ رہی ندی میں گر گئی ۔اور ہیلی کاپٹر بھی کھائی میں ہی لیکن ندی سے باہر گر گیا۔کچھ دیر میں کی کھائی میں مکمل سناٹا چھا چکا تھا ۔ گاڑی ندی کے تیز بہاؤ میں بہنے لگی۔ وہ وہ دونوں ندی میں پریشر کی وجہ سے جلدی غائب ہو گئے اور اب کاظم اور بریعہ جس گاڑی میں تھے وہ بھی بہاؤ میں بہنے لگی۔ کاظم نے جلدی سے رسی نکال کر ندی کے باہر پتھر پر پھینکی۔ تاکہ وہ اس رسی کو پکڑ کر ندی کے تیز بہاؤ میں کنارے تک پہنچ جائیں۔ رسی پھینکی مگر پہنچی نہیں دوسرے بار بھی نہیں پہنچی۔ پھر رسی تیسری دفعہ سمیٹ کر پھینکی تو رسی بندھ گئی۔

       " پہلے تم جاؤ..... " کاظم نے بریعہ سے جلدی سے کہا

بریعہ کسی طرح پانی کے تیز بہاؤ کو چیرتے ہوے بڑی مشکل سے کنارے تک پہنچ گئی ۔ اب کاظم کی باری تھی ۔ کاظم نے گرفت رسی پر مضبوط کی تو گاڑی پر کمزور ہوئی۔ کمزور گرفت میں سے ندی کا پانی گاڑی کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ اور کاظم بھی اس تیز بہاؤ والے پانی میں محظ ایک رسی کے سہارے تھا۔ سو ڈوب گیا۔ بریعہ نے جب دو تین منٹ تک دیکھا اور کوئی نہ آیا کمزور پڑ گئی۔ بریعہ بھاگ کر ندی کنارے آئی اور کاظم کاظم چلانے لگی۔ 

بریعہ کی اس آواز کو سن کر وہی آدمخور جو اس مکان سے ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگے تھے انھوں نے پہچان لیا اور وہ جلد ہی اس کھائی کے کنارے پر پہنچ گئے ۔ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے آرہے تھے تو ٹکرا کر بہت سے آدمخور گلاٹیاں کھاتے ہوئے کھائی کے اندر آگے ۔ بریعہ انھیں دیکھ کر ڈر گئی البتہ وہ ندی کے دوسری جانب تھے جس جگہ وہ ہیلی کاپٹر کریش ہو کر پڑا تھا۔بریعہ ندی کے دوسری جانب نکل آئی تھی۔ 

بریعہ اب رونے ہی والی تھی تبھی کنارے پر ہماچل ہوئی۔ وہ کاظم ہی تھا۔ بریعہ کے چہرے پر سولہ طبع روشن ہوگئے۔ 

        " ایک کام کرو تم رو لو ایک بار اچھی طرح سے۔۔۔۔۔۔ میری خیر ہے میں تو زیادہ سے زیادہ اس ندی میں بہہ ہی جاؤں گا نا۔۔۔۔۔۔۔ رو لو رو لو کوئی بات نہیں " کاظم جو کہ ابھی بھی رسی کو پکڑے پانی کی مخالف سمت میں زور لگا رہا تھا۔ بریعہ مسکرائی اور بھاگ کر رسی کو پکڑ کر کھینچنے لگی۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کے کھینچنے سے رسی پر رتی برابر بھی اثر نہیں پڑا تھا۔ لیکن کاظم کو ہمت ضرور ملی۔ باہر نکل کر کاظم زور زور سے کھانسنے لگا ۔ پانی اس کی ناک اور گلے میں بھی چلا گیا تھا۔

 کھانسنے سے فارغ ہوا تو سامنے بریعہ کو پایا۔ جو کہ اسے پھر سے بےبسی والی مسکراہٹ سے گھور رہی تھی۔ اس نے سمجھ لیا کہ کوئی نہ کوئی پنگہ ہوا ہے۔ بریعہ کے اشارے پر اس نے ندی کے دوسرے کنارے پر موجود ان آدمخوروں کی طرف دیکھا۔ جن سے اب اسے کوئی خاص ڈر نہیں لگا۔ ویسے بھی یہ دونوں جانتے تھے کہ اب اس تیز بہاؤ میں آدمخور اس طرف نہیں پہنچ پائیں گے۔ اب اس اینٹیڈوڈ کا بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ بہہ گیا ہے یا نہیں۔ اس کے لیے اب اس ہیلی کاپٹر کی تلاشی لینی پڑنی تھی جو کہ آسان بالکل بھی نہیں تھا۔ کاظم نے پہلے تو اس ندی کے بارے میں سوچا کہ اس صحرا میں ندی کیسے آگئی۔

 یہاں پر پانی کا آنا تو ممکن نہیں تھا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اب کوئی ڈیم جو اس علاقے کو پانی سیراب کرتا ہے۔ وہ ابھی ان آدمخوروں کے زیرِستم آگیا ہے۔ وہ آدمخور جو ندی کے دوسری جانب تھے۔ شکار کی دھن میں آگے بڑھتے اور پانی میں بہے جا رہے تھے۔ کاظم نے غور کیا تو اسے دِکھا کہ بہت دور سے ندی بہت کھلی ہے یعنی وہاں ندی کی گہرائی اور پریشر کم ہو سکتا ہے۔ کاظم اسی طرف بڑھا۔ کچھ دیر بعد کاظم وہاں سے ندی عبور کر کے ہیلی کاپٹر کے پاس آگیا اور کاظم نے اس ہیلی کاپٹر کی تلاشی شروع کی۔ 

کچھ دیر بعد اسے وہ اینٹیڈوڈ والا بیگ مل گیا کاظم نے اسے بےچینی سے کھولا۔ لگے بدقسمتی سے اس میں موجود اینٹیڈوڈ جس شیشے کی ڈبیا میں تھا وہ ٹوٹ گئی تھی اور سارا اینٹیڈوڈ بہہ گیا تھا۔ کاظم کے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اب تو اس کے دل میں بھی حول اور مختلف قسم کے سوال اٹھ رہے تھے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے وہ آخری امید بھی ختم ہو گئی تھی۔ کاظم سوچوں میں گم تھا۔ بریعہ پھر سے چلانے لگی 

      ". کاظم بھاگوں۔۔۔۔۔۔۔ وہ آ رہے ہیں. " بریعہ جو کہ ندی کی دوسری جانب یعنی وہیں سے چلا رہی تھی۔

اچانک کاظم کے سامنے ہی ہیلی کاپٹر کے تباہ شدہ پرزوں کو کسی آدمخور نے اٹھا کے دور پھنکا۔ اس سے کاظم ان آدمخوروں کے سامنے واضع ہو گیا۔ انھیں اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھا کر کاظم نے بھی دوڑیں لگا دیں۔ ڈر کی وجہ سے اس نے اس بیگ کو جسے وہ پھینکنے لگا تھا زور سے پکڑ لیا اور کاظم نے جلدی سے اس جگہ سے جہاں سے اس نے پہلے ندی عبور کی تھی۔ وہیں سے دوبارہ ندی عبور کر کے بریعہ کی طرف بھاگنے لگا۔ ان آدمخوروں کو اردگرد کو کوئی فکر ہوتی تو نہیں ہے۔ اس لیے جنھوں کے ندی تک پہنچنے سے پہلے کاظم ندی عبور کر کے دور گہرے حصے کی طرف بھاگا تھا۔ 

وہ بھی کسی گہرائی کو نہ پہچانتے ہوئے واپس گہرے حصے کی طرف ہی آگئے۔ اس طرح وہ اب دوبارہ سے کچھ اور آدمخور بھی بہہ گئے۔ کاظم کو دوڑتا دیکھ کر بریعہ نے بھی دوڑ لگا دی۔ یوں بریعہ کو دوڑتا دیکھ کر کاظم نے بھی اپنی رفتار قائم رکھی۔ کچھ دور جا کر انھیں اس کھائی سے باہر نکلنے والا راستے دیکھائی دیا ۔ جو کہ شاید مقامی انسانوں نے ہی اس کھائی کو عبور کرنے کے لیے بنایا تھا۔ دونوں جلدی سے کھائی سے باہر نکلے۔ سامنے اب کوئی منزل بھی نہیں تھی۔دو تھے تو ہمت بھی نہیں ہارے اور دور دور تک کسی قسم کا کوئی سائہ بھی نہیں تھا ۔ تقریباً سات کلومیٹر دور پہاڑیوں سے نظریں ٹکرا کر واپس آگئیں۔ پہاڑیاں بھی زیادہ اونچی نہیں تھیں۔ انھیں بس مٹی کے اونچے ڈھیر کہا جا سکتا ہے۔ جن کی اونچائی تقریباً چالیس میٹر تھی۔

 پیچھے مڑ نہیں سکتے تھے۔ اس لیے دونون آگے مشکل راستے پر ہی چل پڑے۔ راستے مشکل تھا کیونکہ دھوپ ، بھوک اور لو اپنے زوروں پر تھے۔ دونوں نے پہاڑیوں کے قریب پہنچ کر ایک ان کے سائے میں ذرا سانس لیا۔ منہ سے الفاظ کا نکلنا محال تھا۔ پہاڑیوں کی اوٹ میں کچھ دیر سانس لینے کے بعد کاظم بھی بریعہ کی طرف ہاری ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا ۔ بریعہ کی نظریں بھی اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔ 

جیسے وہ اب بریعہ کے ارادے کا منتظر تھا۔ بریعہ بھی اسی بس دیکھتی رہی تھی۔ تو کاظم جھٹ سے اٹھا اور ایک پہاڑی پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ بریعہ نے وہ بیگ وہیں زمین پر پڑا دیکھا اور سمجھی کی کاظم اسے بھول کر چھوڑ گیا ہے۔ تو اس نے بھی وہ بیگ کھولا تو اس میں اس اینٹیڈوڈ والی شیشی ٹوٹی ہوئی پائی۔ جسے دیکھ کر وہ بھی اپنے ہوش گنوا بیٹھی اور بھاگ کر کاظم کو مخاطب کیا

     " اس میں تو اینٹیڈوڈ تھا نا " بریعہ بھی کاظم جو کہ پہاڑی پر چڑھنے میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا اس کے سامنی متعدی نگاہوں کو بھی سوال بنا کر کا پیش کیا۔ جس پر کاظم نے ایک آہ بھری ۔ 

     " تھا۔۔۔۔۔ لیکن اب نہیں ہے ۔ ہمیں کوئی دوسرا راستہ ڈھونڈنا ہے "کاظم نے بھی جھکی ہوئی نظروں کو خلوصت سے اُٹھا کر بریعہ کو حوصلہ دیا۔ پر یہ حوصلہ افزائی بےکار گئی۔ اس بیگ میں کچھ کانچ کے ٹکڑے اور کچھ کاغذات تھے۔ بریعہ نے ان کاغذات پر غور کیا تو اسے کچھ فارمولے سمجھ میں آئے۔

 وہ سمجھ گئی کہ اب بھی امید پوری طرح سے ٹوٹی نہیں۔ پھر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ یہ فارمولے تو اس نے پہلے بھی کہیں دیکھے ہیں۔ لیکن اس بات پر اس نے زیادہ غور نہ کیا اور اوپر پہاڑی پر چڑھنے کی کوششوں پر کوششیں کرتے کاظم کو دیکھنے پہاڑی سے تھوڑا دور ہٹی اور ان پہاڑیوں کا معائنہ کرنے لگی۔ اس نے جلد ہی راستہ ڈھونڈ لیا اور اس پر چڑھنے لگی۔ تو کامیاب بھی ہو گئی۔ پھر کاظم کو بھی آواز دی۔ تو کاظم بھی اسی راستے سے اوپر چڑھ آیا۔ پہاڑی کے دوسری جانب کا منظر دیکھ کر ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہاں ایک ملٹری بیس تھی۔ انھوں نے وہاں پر موجود خطرے سے بےخبر ملٹری بیس کی طرف دوڑ لگا دی۔ 

ملٹری بیس کے اردگرد ایک باڑ لگائی ہوئی تھی جس میں کرنٹ ہو سکتا تھا۔ تو دونوں بر قراری سے اندر داخل ہونے کا راستہ ڈھونڈھنے لگے ۔ کافی دیر کے بعد انھیں ایک ایمرجنسی گیٹ مل گیا جس پر تالا لگا تھا۔ مگر وہ تالا توڑ کر دونوں اندر داخل ہوگئے۔ کاظم حیران تھا کہ انھوں نے ایک ملٹری بیس کا تالا توڑا مگر کسی نے نہ ہی انھیں سیکھا اور نہ ہی کوئی سپاہی یا فوجی انھیں پکڑنے آیا۔ انھیں سوچوں میں کاظم گم تھا اور بریعہ اندر داخل ہو گئی۔اندر سناٹا تھا ہر طرف کچھ چھوٹے جہاز کھڑے تھے۔ ماحول دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ فوج یہاں پر موجود نہیں بلکہ تمام ضروری سامان لے کر جا چکی ہے اور بالکل ایسا ہی تھا۔ 

انھوں نے تلاش جاری رکھیں۔ کچھ دیر بعد انہیں ایک کیمپ میں کچھ سامان نظر آیا۔ کھانے کا سامان ڈھونڈنے پر مل گیا اور دونوں کانے پر جھپٹ پڑے۔ کھانا کھائے انھیں تین دن ہو گئے تھے۔ پیٹ تک کچھ پہنچا تو اب فکر ہوئی کہ یہ ماجرا کیا یہاں ایک ملٹری بیس ہے پر کوئی فوجی نہیں اِسی سوچ کے ساتھ کاظم کیمپ سے نکل کر اردگرد ماحول پر نظر جمانے لگا۔ دو بڑے کنسٹرکٹڈ کیمپس کے درمیان یہ ایک کپڑے کا کیمپ تھا۔ جس میں سے کاظم باہر نکل آیا پر ابھی بھی بریعہ کھانا کھانے میں مصروف تھی۔

 تبھی کسی آدمخور کی آواز نے بریعہ کے ہاتھ سے بریڈ گرا دیا۔ اور وہ ڈرتی ہوئی بھاگ کر باہر کاظم کے پاس آ کر اس سے مخاطب ہوئی

  " یہ کیا تھا " بریعہ ابھی بھی ڈر سے کانپ رہی تھی اور کاظم کے پیچھے کھڑی تھی۔ تبھی کچھ زیادہ آدمخوروں کی آوازیں انے لگی۔ شاید کچھ آدمخور ابھی لڑ رہے تھے۔ وہ اس بیس میں ہی موجود کسی بڑے کنسٹرکٹڈ کیمپ میں تھے۔ کاظم باہر نکلا اور سنبھل کر اور جھک کر ایک ساتھ والے بڑے کنسٹرکٹڈ کیمپ کی طرف بڑھا۔ اس کنسٹرکٹڈ کیمپ کے دروازے کے ساتھ پیٹھ لگا کے کاظم نے اندر جھونکا۔ آدمخوروں کی آوازیں اور اونچی اور لگاتار آنے لگی تھی۔

 کاظم کو اس بات کا تجسس تھا کہ یہ آدمخور کس قسم کے ہیں۔ بریعہ بھی اسی کی نقل کرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ کاظم دروازے سے پیٹھ لگائے کھڑا تھا۔ پر بریعہ کو اس کے ارادے سمجھ نہیں آرہے تھے۔

" اس طرف کیوں آئے ہو۔۔!۔۔۔۔ ہمیں تو اس طرف جانا چاہیے نا " بریعہ نے یہ الفاظ سرگوشی میں کاظم سے کہے مگر ان آدمخوروں کی چنگھاڑوں کے درمیان بریعہ کی یہ آواز کاظم کو سمجھ نہیں آئی۔ تو بریعہ کو تھوڑا اونچا بولنے کا اشارہ کیا۔

 بریعہ نہ یہ لفاظی جب اونچی آواز میں دہرائے تو ان آدمخوروں میں سے ایک آدمخور بھی متوجہ ہوا اور بلاجواز ان کی طرف بڑھنے لگا۔ اس سے کاظم اور بریعہ بے خبر تھے۔ 

" میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ اب یہاں پر کونسی قسم کے آدمخور ہیں " کاظم نے بھی بریعہ کے سوال کا جواب سرگوشی میں دیا۔ تبھی کاظم نے جب واپس ان کی طرف دیکھا تو وہ ایک آدمخور ان کی طرف آرہا تھا۔ پھر کاظم کو ایک اور جھوٹا لگا اور اس نے دوڑیں لگا دیں بریعہ کو اس کی دوڑ لگانے کی وجہ نہ پتہ تھی تو اسے دوڑتا دیکھنے لگی۔ وہ آدمخور بھی دوڑ کر دروازے سے باہر نکلا اور بریعہ کے سامنے سے کاظم کے پیچھے نکل ۔

 بریعہ ابھی بھی دروازے سے پیٹھ لگا کر کھڑی تھی۔ اس لیے اس آدمخور کو دھیان اس کی طرف نہ ہوا۔ کاظم آگے آگے اور وہ آدمخور پیچھے پیچھے۔ بریعہ بھی کاظم کے لیے چیر کرنے لگی اور اسے اور تیز دوڑنے کا چلانے لگی۔ کاظم دوڑ رہا تھا مگر جوش بریعہ کا پھڑاٹے مار رہا تھا۔ اور چھلانگیں لگا لگا کر اسے اور تیز دوڑنے کا کہہ رہی تھی۔ جس سے وہ باقی آدمخور جو لڑنے میں مصروف تھے وہ متوجہ ہو کر اس کی طرف لپکے۔ 

بریعہ ان کی چنگھاڑیں اپنی طرف بڑھتیں ہوئیں سن کر پیچھے مڑی اور وہ بھی شاک لگنے والی شکل بنا کر دوسری طرف دوڑنے لگی۔ اس کے چہرے پر رونے اور غصے والے تاثرات تھے۔ اس نے پیچھے کوئی دس بارہ آدمخور تھے۔ 


جاری ہے۔۔۔


Writer - Daoud Ibrahim


#koh_novels_urdu #daoud_ibrahim #koh_writer'z

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)